
الغ بیگ خاکیموف ازبکستان کے رہنے والے ہیں۔ اُنہیں 2003 کی اپنے آبائی شہر میں پیس کور کے رضاکاروں کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات آج بھی یاد ہے۔ انہوں نے اِن رضاکاروں کو پیلاف بنانا اور نوروز جیسے تہوار منانے کے طریقے سیکھائے۔
فروری میں انہوں نے لکھا کہ “اِن تجربات نے ہمیشہ کے لیے میری زندگی بدل دی۔”
ازبکستان کے شہر گلستان میں پلنے بڑھنے والے خاکیموف کو تبادلے کے پروگراموں سے اپنی انگریزی زبان کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کی ترغیب ملی۔ اب وہ تاشقند میں امریکی سفارت خانے میں پریس اسسٹنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں۔
دسمبر 2022 میں پیس کور نے ویت نام میں رضاکاروں کے اپنے پہلے گروپ کے شرکاء کا خیرمقدم کیا۔ اس طرح ویت نام پیس کور کا 143واں شراکت کار ملک بن گیا۔ انگریزی کے نو رضاکار اساتذہ ویت نامی اساتذہ کے ساتھ مل کر مقامی ثانوی سکولوں میں پڑھائیں گے۔
پیس کور کی ڈائریکٹر کیرول سپاہن نے کہا کہ “ویت نام کی ہماری عالمی برادری میں شمولیت ایک خوش کن اضافہ ہے۔ میں یہ دیکھنے کی منتظر ہوں کہ رضاکار اور اور اساتذہ مل کر کس طرح اگلی نسل کو متاثر کریں گے۔”

جان ایف کینیڈی کے عالمی سطح پر عوامی خدمت کی اہمیت کی طرف توجہ دلانے کے بعد پیس کور وجود میں آئی۔
1960 میں کینیڈی امریکہ کے سینیٹر تھے اورامیدوار کی حیثیت سے اپنی صدارتی مہم چلا رہے تھے۔ اس دوران وہ مشی گن یونیورسٹی کے دورے پر گئے اور انہوں نے طلبہ سے پوچھا کہ کیا وہ امن کے لیے بیرون ملک رہ کر اور کام کرکے اپنے ملک کی خدمت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس کے چند ماہ بعد کینیڈی صدر بن گئے اور انہوں نے پیس کور کے قیام کے لیے ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا۔

اس کے نتیجے میں:
- 240,000 سے زائد امریکی 1961 کے بعد بیرونی ممالک میں رضاکاروں کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔
- کووڈ-19 سے پہلے 62 ممالک میں 7,300 رضاکار خدمات انجام دے چکے تھے۔
- اس وقت امن کور کے تقریباً 900 رضاکار 45 ممالک میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
کئی رضاکاروں نے تعیناتی کی اپنی پہلی مدت کو بہت مفید پایا اور انہوں نے کسی دوسرے ملک میں ایک اور مدت کے لیے درخواست دی۔ کرسٹین پلمبو نے 21 سال کی عمر میں سیرا لیون میں دو سال تک تدریسی خدمات انجام دیں اور لائبریری کے لیے چندہ جمع کیا۔
انہوں نے کہا کہ “چاہے آپ کسی بھی جگہ پر ہوں عالمی شہری ہونے کے ناطے یہ ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور جانیں کہ ہم کہاں مدد کر سکتے ہیں۔ پیس کور کی خدمات دوسرے ممالک کی مدد کرنے کا ہی ایک طریقہ ہیں۔”
اس کے کئی دہائیوں بعد 2018-2019 کے دوران وہ انگریزی کے قومی امتحان میں مدد کرنے کی خاطر کوسٹا ریکا واپس گئیں۔ انہوں نے ایک ورچوئل پروگرام میں مشرقی تیمور میں انگریزی اساتذہ کی سرپرستی بھی کی۔

ایریکا برائنٹ کے 1990 کی دہائی کے دوران گنی میں انگریزی پڑھانے سے حاصل ہونے والے تجربات نے ان فیصلوں کو متاثر کیا جو انہوں نے بعد میں اپنی زندگی میں کیے۔ وہ 10 سال مالی میں رہیں اور امریکہ واپس آنے سے پہلے تعلیم کے شعبے میں کام کیا۔
برائنٹ نے بتایا کہ “پیس کور نے حقیقی معنوں میں میری زندگی کا رخ بدل دیا۔ اپنے کام کے دوران مجھے افریقی براعظم سے پیار ہو گیا۔ آج کل وہ واشنگٹن میں ایک چارٹر سکول کی سربراہ ہیں۔ اُن کے بیٹے اُن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بیرونی ممالک کا سفر کرتے ہیں اور آج کل وہ فرانسیسی اور عربی سیکھ رہے ہیں۔”