اقوام متحدہ میں بائیڈن کا خطاب: ایک زیادہ آزاد اور منصفانہ دنیا کے لیے شراکت کاری

صدر بائیڈن نے 21 ستمبر کو کہا کہ امریکہ تمام لوگوں کی زندگیوں پر اثرانداز ہونے والے مسائل پر قابو پانے کی خاطر بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے، “انتھک سفارت کاری کے ایک نئے دور” کا آغاز کرنے جا رہا ہے۔

نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77ویں اجلاس سے خطاب میں بائیڈن نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی، عالمی صحت اور خوراک کے عدم تحفظ جیسے عالمی مسائل کو حل کرنے کے لیے امریکہ اپنے مسابقت کاروں سمیت کسی بھی ملک کے ساتھ مل کر کام کرے گا –

بائیڈن نے کہا کہ “امریکہ ایک آزاد، کھلی، محفوظ اور خوشحال دنیا کے اپنے تصور کو فروغ دینے کے لیے بے باکی سے کام لے گا۔” انہوں نے اس بات کو واضح کیا کہ امریکہ دوسرے ممالک کے بوجھوں کو کم کرنے اور اُن کی  خودکفالتی کو بہتر بنانے میں مدد کرنے کے لیے سرمایہ کاریوں کی پیش کش کرے گا۔

موضوعات کے وسیع سلسلے کا احاطہ کرنے والے اپنے خطاب میں بائیڈن نے بتایا کہ امریکہ اور اس کے شراکت کار عالمی چیلنجوں سے کس طرح نمٹ رہے ہیں۔ انہوں نے اندرون اور بیرون ملک جمہوریت کو مضبوط کرنے کا عزم بھی کیا اور اسے “ہمارے وقت کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے انسانیت کا ایک سب سے بڑا “ذریعہ” قرار دیا۔

یوکرین کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا

بائیڈن نے کہا کہ یوکرین کے خلاف روسی صدر ولاڈیمیر پیوٹن کی “سفاکانہ [اور] بلا ضرورت جنگ” اقوام متحدہ کے منشور کے مقاصد کی صریح خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے جنرل اسمبلی کے اُن 141 ممالک کی تعریف کی جنہوں نے پیوٹن کی جنگ کی مذمت کے حق میں ووٹ دیا اور کہا کہ امریکہ اور درجنوں دیگر ممالک نے یوکرین کو امداد فراہم کی ہے۔

 حفاظتی لباس پہنے ایک آدمی درختوں میں لاشوں والے سفید تھیلوں کے پاس کھڑا ہے (© Evgeniy Maloletka/AP Images)
یوکرین کے حکام کا کہنا ہے کہ انہیں دوبارہ قبضے میں لیے گئے شہر ایزیوم کے قریب ایک اجتماعی قبر ملی ہے۔ 16 ستمبر کی اس تصویر میں لاشوں کے تھیلے دکھائی دے رہے ہیں۔ (© Evgeniy Maloletka/AP Images)

صدر نے کہا کہ “یوکرین کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو دنیا کے کسی بھی خود مختار ملک کو حاصل ہوتے ہیں۔ ہم یوکرین کے ساتھ یکجہتی کے طور پر شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے۔ ہم روسی جارحیت کے خلاف یکجہتی کے طور پر کھڑے رہیں گے۔ یہ حرف آخر ہے۔”

بائیڈن نے کہا کہ امریکہ یوکرین میں مظالم اور جنگی جرائم پر روس کو جوابدہ ٹھہرانے اور اِسے اِن سے باز رکھنے کے لیے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ اقوام متحدہ کے منشور کی سربلندی  کو برقرار رکھنے کے اپنے عزم میں ثابت قدم  رہیں جس کے تحت یوکرین کو کسی بھی دوسرے خودمختار ملک کی طرح برابر کے حقوق حاصل ہیں۔

موسمیاتی مسائل کے حل کے لیے سرمایہ کاری

امریکہ آب و ہوا کے بحران سے نمٹنے کے لیے ملک کے اندر مسائل کو حل کرنے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اس ضمن میں امریکہ “کوپ 26” میں کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد کر رہا ہے اور اپنے اہداف کو پیرس معاہدے کے اہداف کے ساتھ ہم آہنگ کر رہا ہے تاکہ حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سنٹی گریڈ تک محدود کیا جا سکے۔

بائیڈن نے کہا کہ “ہم سب کے علم میں ہے کہ اس وقت ہم آب و ہوا کے ایک بحران سے گزر رہے ہیں۔” صدر نے بتایا کہ انہوں نے حال ہی میں ایک قانون پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے اربوں ڈالر کی رقم فراہم کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون کے تحت صاف توانائی میں کی جانے والی سرمایہ کاری اور اٹھائے جانے والے دیگر اقدامات کے نتیجے میں 2030 تک امریکی اخراجوں میں ایک گیگاٹن سالانہ تک کی کمی آئے گی۔

صدر نے کہا کہ اِس کے علاوہ اُن کی انتظامیہ امریکی کانگریس کے ساتھ بھی مل کر کام کر رہی ہے تاکہ بین الاقوامی موسمیاتی فنانسنگ کے لیے ہر سال 11 ارب ڈالر سے زائد کی رقم حاصل کی جا سکے۔ اس اقدام کا مقصد کم آمدنی والے ممالک کی مدد کرنا ہے تاکہ وہ اپنے آب و ہوا کے اہداف پورا کرنے کے ساتھ ساتھ توانائی کی منصفانہ منتقلی کو یقینی بنا سکیں۔

اس منصوبے کا ایک اہم جز مخففاً PREPARE [پریپیئر] کہلانے والا”صدر کا ہنگامی منصوبہ برائے موافقت اور لچک ہے۔” اس منصوبے کے تحت نصف ارب لوگوں کی موسمیاتی بحران کے اثرات سے نمٹنے اور ان کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے میں مدد کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ “پریپیئر ایکشن پلان” میں ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے درکار اُن اقدامات اور کلیدی شعبوں کا خاکہ پیش کیا گیا ہے جن میں امریکہ موافقت کے عمل کو تیز تر کرنے کے لیے شراکت داری کرے گا۔

عالمی صحت اور غذائی سلامتی کو مضبوط بنانا

امریکہ بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے دنیا کے ممالک کو کووڈ-19 ویکسین کی 620 ملین سے زائد خوراکوں کے عطیات دے چکا ہے۔ بائیڈن نے بتایا کہ امریکہ اور دیگر ممالک نے عالمی بینک اور عالمی ادارہ صحت کی وبائی امراض سے نمٹنے کے لیے تیار رہنے کے لیے ایک نیا فنڈ قائم کرنے میں مدد کی۔

صدر بائیڈن نے یہ بھی بتایا کہ امریکہ اقوام متحدہ کی ایڈز، تپ دق اور ملیریا کے خاتمے کی مہم میں 6 ارب ڈالر تک کی رقم دینے کا وعدہ کرنے والا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وعدے کا اعلان ان کی تقریر کے بعد چند گھنٹوں کے اندر کر دیا جائے گا۔

بائیڈن نے کہا کہ یوکرین کے خلاف روسی جنگ، موسمیاتی بحران اور کووڈ-19 وبا خوراک کی قلت میں مزید اضافے کا سبب بنے ہیں جن کی وجہ سے دنیا بھر میں تقریباً 193 ملین افراد خوراک کے شدید عدم تحفظ سے دوچار ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “اگر والدین اپنے بچوں کو [دو وقت کی] روٹی بھی نہیں کھلا سکتے تو پھر پیچھے کیا رہ جاتا ہے۔”

 گلابی پھلیوں کا ڈھیر اور لوگ (Herve Irankunda/CNFA/USAID)
امریکہ کے “یو ایس فیڈ دی فیوچر” نامی پروگرام کے تحت فولاد سے بھرپور پھلیوں کو فروغ دیا جاتا ہے۔ تصویر میں دکھائی دینے والی ایسی ہی پھلیاں بیگسیرا، روانڈا میں اگائی گئی ہیں۔ غذائیت سے بھرپور اور آب و ہوا کے اثرات کا مقابلہ کرنے والی اِن پھلیوں کو پائیدار خوراک کے نظاموں میں مثالی حیثیت حاصل ہے۔ (Herve Irankunda/CNFA/USAID)

بائیڈن نے کہا کہ امریکہ اقوام متحدہ کے خوراک کے عالمی پروگرام میں سب سے زیادہ عطیات دینے والا ملک ہے۔ امریکہ اِس پروگرام کے مجموعی بجٹ کا 40 فیصد حصہ فراہم کرتا ہے۔

انہوں نے عالمی غذائی عدم تحفظ سے نمٹنے کے لیے امریکی حکومت کی طرف سے 2.9 ارب ڈالر کی نئی انسانی اور ترقیاتی امداد کا بھی اعلان کیا۔ یہ نئی فنڈنگ 6.9 ارب ڈالر کی اُس فنڈنگ کے علاوہ ہے جو امریکی حکومت غذائی سلامتی میں مدد کرنے کے لیے پہلے ہی فراہم کر چکی ہے۔ مذکورہ فنڈنگ کا وعدہ اس سال کیا گیا تھا۔

صدر نے بتایا کہ امریکہ اقتصادی ترقی کو بڑہاوا دینے اور مواقعوں کو فروغ دینے کے لیے افریقہ، مشرق وسطی اور بحرہند و بحرالکاہل میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔

بائیڈن نے کہا کہ “اس میں کوئی شک نہیں کہ آج ہمیں جن چیلنجوں کا سامنا ہے وہ بہت بڑے ہیں۔” انہوں نے بتایا کہ اِن چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اکٹھا مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ممالک اِن [چیلنجوں]  سے کہیں زیادہ بڑی صلاحیتیں رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ “ہم اب بھی یقین رکھتے ہیں کہ مل کر کام کرتے ہوئے ہم تاریخ کے دھارے کو اپنی آنے والی تمام نسلوں کے لیے ایک زیادہ  آزاد اور زیادہ انصاف پسند دنیا کی جانب موڑ سکتے ہیں۔”